شملہ (ایم وائے کے نیوز ٹی وی) بھارت میں قدیم قبائلی روایت ایک بار پھر منظرعام پر آگئی، جہاں ریاست ہماچل پردیش کے ایک دور افتادہ گاؤں میں دو سگے بھائیوں نے ایک ہی خاتون سے بیک وقت شادی کر کے سب کو حیران کر دیا۔ اس غیر معمولی شادی نے نہ صرف سوشل میڈیا پر تہلکہ مچا دیا بلکہ ملک بھر میں اس قدیم رسم پر نئی بحث چھیڑ دی ہے۔
یہ انوکھی شادی ہماچل پردیش کے ضلع ٹرانسگیری کے گاؤں شیلائی میں واقع ہاٹی قبیلے سے تعلق رکھنے والے دو بھائیوں، پردیپ اور کپیل نیگی نے کی، جنہوں نے سنیتا چوہان نامی خاتون سے مشترکہ طور پر شادی رچائی۔ تینوں نے واضح طور پر بیان دیا کہ یہ فیصلہ انہوں نے کسی دباؤ یا مجبوری کے تحت نہیں بلکہ باہمی رضامندی سے کیا، اور وہ اس زندگی کو خوشی سے قبول کرتے ہیں۔
مقامی قبائلی روایات کے مطابق ایک خاتون کا بیک وقت دو یا اس سے زیادہ بھائیوں سے شادی کرنا "جودیدارا” کہلاتا ہے، جو ماضی میں ان قبائل میں عام رواج تھا۔ اس رسم کا مقصد آبائی زمین اور جائیداد کو تقسیم ہونے سے بچانا تھا۔ اس طریقے سے خاندان کی زمین ایک ہی جگہ رہتی ہے اور وراثتی جھگڑوں سے بچا جا سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ طرزِ نکاح اس وقت زیادہ عام تھا جب تعلیم اور قانونی آگاہی ناپید تھی، تاہم اب کے دور میں ایسے واقعات کم ہو گئے ہیں۔ خواتین میں تعلیم اور خودمختاری کے رجحان نے اس روایت کو تقریباً ناپید کر دیا تھا، لیکن یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کہیں کہیں یہ روایات آج بھی زندہ ہیں۔
بڑے بھائی پردیپ سرکاری ملازم ہیں اور شیلائی گاؤں میں مقیم ہیں، جب کہ چھوٹے بھائی کپیل روزگار کے سلسلے میں بیرونِ ملک مقیم ہیں۔ ان دونوں نے سنیتا چوہان کو ایک ساتھ اپنا شریکِ حیات بنانے کا فیصلہ قبائلی روایات کے عین مطابق کیا۔ مقامی بزرگوں کا کہنا ہے کہ ایسے نکاح خفیہ انداز میں کیے جاتے ہیں، لیکن گاؤں میں انہیں تسلیم کر لیا جاتا ہے۔ اگرچہ بھارت کے بیشتر علاقوں میں یک زوجگی کا قانون نافذ ہے، لیکن قبائلی علاقوں میں پرانی روایات کو اب بھی نظرانداز کیا جاتا ہے۔ ہماچل پردیش کے بعض علاقوں میں ریونیو قوانین میں اس روایت کا غیر رسمی ذکر موجود ہے، تاہم ان کی قانونی حیثیت واضح نہیں۔
سنیتا چوہان کا کہنا ہے کہ انہیں دونوں بھائیوں سے شادی پر کوئی اعتراض نہیں اور وہ خود یہ فیصلہ خوشی سے کر چکی ہیں۔ ان کے مطابق، اس فیصلے میں نہ خاندان کی طرف سے کوئی دباؤ تھا اور نہ ہی سماجی مجبوری۔ اس شادی کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہیں، جہاں لوگوں نے حیرت، تجسس، اور تنقید کے ملے جلے جذبات کا اظہار کیا۔ کچھ افراد نے اسے قبائلی ثقافت کا حصہ قرار دیا، تو بعض نے عورت کے حقِ انتخاب اور مردوں کے کردار پر سوالات اٹھائے۔