ڈھاکہ (ایم وائے کے نیوز) جنوبی ایشیا میں بھارت کو اس وقت غیر متوقع جھٹکا لگا جب بنگلہ دیش نے بھارت کی سرکاری دفاعی کمپنی گارڈن ریچ شپ بلڈرز اینڈ انجینیئرز لمیٹڈ کے ساتھ 2 کروڑ 10 لاکھ ڈالر مالیت کا اہم دفاعی معاہدہ اچانک منسوخ کر دیا۔ یہ معاہدہ جولائی 2024 میں طے پایا تھا اور اس کے تحت بھارتی کمپنی نے بنگلہ دیشی بحریہ کے لیے ایک جدید قسم کی ٹگ بوٹ تیار کرنا تھی، جو گہرے سمندر میں مخصوص مشنز کے لیے استعمال کی جانی تھی۔
بھارتی وزارتِ دفاع کے ماتحت کام کرنے والی اس معروف کمپنی نے 21 مئی کو اسٹاک ایکسچینج میں باقاعدہ فائلنگ کے ذریعے اس معاہدے کی منسوخی کی تصدیق کی۔ کمپنی کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ فیصلہ بنگلہ دیشی حکومت کے ساتھ مشاورت کے بعد کیا گیا اور ان کے بقول یہ اقدام پہلے سے متوقع تھا۔ تاہم بنگلہ دیشی حکومت کی جانب سے تاحال سرکاری طور پر اس منسوخی کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔
بھارتی میڈیا اور دفاعی تجزیہ کار اس اچانک فیصلے کو حالیہ تجارتی تنازع کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق بھارت نے گزشتہ دنوں بنگلہ دیشی مصنوعات پر نئی درآمدی پابندیاں عائد کی تھیں، جس پر ڈھاکہ نے ناراضی کا اظہار کیا تھا۔ ممکنہ طور پر یہ منسوخی انہی اقدامات کے ردعمل میں سامنے آئی ہے، جو دونوں ممالک کے تعلقات میں بڑھتے ہوئے تناؤ کی علامت ہو سکتی ہے۔ یاد رہے کہ یہ معاہدہ اس وقت طے پایا تھا جب بھارتی بحریہ کے سربراہ ایڈمرل دینیش کے تریپاٹھی نے جولائی 2024 میں بنگلہ دیش کا دورہ کیا تھا۔ دفاعی اور سفارتی سطح پر اس دورے کو دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک نئے باب کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا، مگر اب یہ پیش رفت اچانک رخ موڑ گئی ہے۔
علاقائی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کے دور رس اثرات ہو سکتے ہیں، نہ صرف بھارت اور بنگلہ دیش کے دفاعی تعاون پر بلکہ جنوبی ایشیا میں جاری تزویراتی توازن پر بھی۔ تجارتی محاذ پر جاری کشیدگی نے اب دفاعی تعلقات کو بھی اپنی لپیٹ میں لینا شروع کر دیا ہے، اور اگر حالات یہی رخ اختیار کرتے رہے تو آنے والے دنوں میں مزید معاہدے بھی خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق، ڈھاکہ کے باخبر حلقے اس فیصلے کو بنگلہ دیش کی خودمختار خارجہ پالیسی کا اظہار قرار دے رہے ہیں، جو کسی ایک ملک پر انحصار کے بجائے متوازن اور خود مختار فیصلوں پر یقین رکھتی ہے۔ بھارت کے لیے یہ فیصلہ نہ صرف مالی نقصان کا سبب بنے گا بلکہ اس کی علاقائی ساکھ پر بھی اثر ڈال سکتا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب وہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔