اسلام آباد ہائیکورٹ نے کم عمر لڑکی کے اغواء اور مبینہ زیادتی کے مقدمے میں ماتحت عدالت کی جانب سے سنائی گئی عمر قید کی سزا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ملزم کو باعزت بری کر دیا ہے۔ عدالت عالیہ نے اس اہم فیصلے میں استغاثہ کی ناقص تفتیش، گواہوں کے تضادات اور فرانزک شواہد کی مشتبہ تحویل کو بنیاد بنایا، جو کیس کی نوعیت اور عدالتی نظام کے شفاف ہونے پر کئی سوالات بھی چھوڑ گیا ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے اس مقدمے پر 10 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا جس میں واضح کیا گیا کہ مقدمے میں استغاثہ ملزم کے خلاف الزام ثابت کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا۔ ایڈیشنل سیشن جج کی جانب سے ملزم شالم غوری کو عمر قید اور 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی تھی، تاہم اسلام آباد ہائیکورٹ نے شک کا فائدہ دیتے ہوئے سزا کو ختم کر دیا۔ فیصلے میں انکشاف کیا گیا کہ متاثرہ لڑکی نے خود ٹرائل کورٹ میں بیان دیتے ہوئے اعتراف کیا کہ ملزم کو غلط طور پر نامزد کیا گیا۔ یہ اعتراف پورے مقدمے کی بنیاد کو ہلا کر رکھ دینے کے لیے کافی تھا، تاہم عدالت نے باقی شواہد کا بھی تفصیلی جائزہ لیا اور ان میں موجود سنگین تضادات کو بنیاد بنایا۔
عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ فرانزک شواہد کی تحویل میں موجود تضادات استغاثہ کی ساکھ کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔ پولیس افسر سب انسپکٹر قمر اعجاز کی جانب سے عدالت میں تسلیم کیا گیا کہ انہوں نے جو شواہد پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کو بھیجے، وہ محمد اعجاز کے نام سے روانہ کیے گئے، جو کہ ایک سنگین غلطی ہے کیونکہ اصل افسر قمر اعجاز خود تھے۔ مدعیہ کی طرف سے بیان دیا گیا کہ جون 2022 میں سلیم نامی شخص اور اس کے دو ساتھیوں نے سویرا نامی لڑکی کو اغواء کیا تھا، تاہم تفتیش اور گواہوں کے بیانات میں اتنا تضاد پایا گیا کہ عدالت نے اسے شک کے دائرے میں رکھتے ہوئے ملزم کو بری کرنا مناسب سمجھا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے فیصلہ دیا کہ سزا کے خلاف دائر اپیل کو منظور کیا جاتا ہے اور شالم غوری کو فوری طور پر بری کیا جائے، کیونکہ ٹرائل کورٹ کا فیصلہ شواہد کی بنیاد پر قائم نہیں تھا بلکہ محض الزامات پر مشتمل تھا۔