اسلام آباد (ایم وائے کے نیوز) پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان آئندہ مالی سال 2025-26 کے بجٹ میں 700 ارب روپے کے اضافی ٹیکسوں کی وصولی کے لیے اقدامات پر مشاورت جاری ہے، تاہم حکومت کو اس وقت شدید جھٹکا لگا جب آئی ایم ایف نے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کی شرح میں کمی پر اعتراض اٹھا دیا۔
ذرائع کے مطابق وزارت خزانہ نے آئی ایم ایف سے درخواست کی تھی کہ متوسط طبقے (جن کی آمدن 0.2 سے 0.4 ملین روپے ماہانہ ہے) کے لیے ٹیکس میں کمی کی جائے، تاہم آئی ایم ایف نے اس پر سوال اٹھا دیا کہ اس اقدام سے ممکنہ طور پر ہونے والے ریونیو نقصان کا ازالہ کیسے کیا جائے گا۔
آئندہ بجٹ میں حکومت نے مشروبات اور تمباکو سیکٹرز میں بھی ٹیکس اصلاحات کی تجویز دی ہے۔ تمباکو کی صنعت میں سگریٹ کی کم از کم قانونی قیمت (MLP) جو اس وقت 162.25 روپے ہے، میں اضافے پر غور کیا جا رہا ہے، کیونکہ 80 فیصد سے زائد برانڈز اس سے کم یا قریب قریب قیمت پر فروخت ہو رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ایم ایل پی میں اضافہ کیے بغیر موجودہ ایکسائز ڈیوٹی میں تبدیلی کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
اسی دوران ایف بی آر نے نئے بجٹ کے لیے 14,307 ارب روپے کا ریونیو ہدف تجویز کیا ہے، مگر آئی ایم ایف اس تخمینے سے متفق نہیں۔ فنڈ کا کہنا ہے کہ برائے نام اقتصادی نمو کی بنیاد پر ایف بی آر صرف 13,200 ارب روپے تک ہی ریونیو جمع کر سکے گا، یوں 300 ارب روپے کا بڑا فرق ابھرتا دکھائی دے رہا ہے۔ مشروبات کے شعبے میں بھی ٹیکس کی شرح میں کمی پر بات چیت جاری ہے، مگر آئی ایم ایف نے خبردار کیا ہے کہ اگر ریفنڈز کی صورت میں بوجھ بڑھا تو ایف بی آر اسے سنبھال نہیں پائے گا۔ فی الحال ایف بی آر ریفنڈ پیدا کرنے والی کسی بھی اسکیم سے گریز کر رہا ہے۔
ادھر نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی تمباکو نوشی پر ماہرین نے تشویش ظاہر کی ہے۔ سگریٹ پر موجود تصویری وارننگز اور قوانین کے باوجود عملدرآمد ناقص ہے، اور غیرقانونی برانڈز کے ذریعے یہ بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے، اور 26 مئی کو سالانہ منصوبہ بندی رابطہ کمیٹی (APCC) کا اجلاس بھی متوقع ہے، جس میں میکرو اکنامک فریم ورک اور ترقیاتی بجٹ کی سفارشات کو حتمی شکل دی جائے گی۔ دوسری جانب، اسٹیٹ بینک کے مطابق اپریل میں کرنٹ اکاؤنٹ 1 کروڑ 70 لاکھ ڈالر سرپلس میں رہا، جو معاشی بحالی کا اشارہ ضرور ہے، مگر آئی ایم ایف کے تقاضے اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور سخت ہو چکے ہیں۔