دنیا بھر میں امن کے خواب دیکھنے والے بہت سے رہنما تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ کے لیے ایک نشان چھوڑ جاتے ہیں، مگر کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے خواب ان ہی کی زندگی لے ڈالتے ہیں۔ اسرائیل کے سابق وزیراعظم اسحاق رابین ایک ایسی ہی شخصیت تھے، جنہوں نے فلسطینیوں کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کی کوشش کی، مگر یہی جرأت اُن کے لیے موت کا پروانہ بن گئی۔
اسرائیلی تاریخ میں وہ پہلے وزیر اعظم تھے جو آزاد فلسطینی سرزمین پر پیدا ہوئے۔ ان کے سیاسی کیریئر سے قبل وہ ایک کامیاب جنرل رہے اور یہی میدان جنگ ان کی سوچ بدلنے کی بنیاد بنا۔ انہوں نے بخوبی جان لیا تھا کہ اسرائیل کو طویل المدتی استحکام جنگ نہیں، بلکہ امن سے حاصل ہوگا۔ اسی سوچ نے انہیں 1993 میں فلسطینی رہنما یاسر عرفات کے ساتھ اوسلو معاہدہ پر دستخط کرنے کی طرف مائل کیا۔ یہ معاہدہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن کی تاریخ کا ایک سنگِ میل سمجھا جاتا ہے، جس کے تحت فلسطینی علاقوں کو محدود خودمختاری دی گئی۔
تاہم اس اہم اور تاریخی معاہدے نے اسرائیل کے اندر مذہبی اور سیاسی انتہا پسندوں کو چراغ پا کر دیا۔ خاص طور پر دائیں بازو کی جماعت لیکود پارٹی، جس کی قیادت اُس وقت بینجمن نیتن یاہو کر رہے تھے، اس معاہدے کو "اسرائیلی زمین کا غدارانہ سودا” قرار دیا۔ جلسے جلوسوں میں اسحاق رابین کے خلاف کھلے عام "موت ہو رابین کو” جیسے نعرے لگائے جانے لگے۔ مذہبی انتہا پسند عالموں نے بھی ان کے قتل کو ’یہودی شریعت‘ کے مطابق درست قرار دیا۔ ایسے ہی ماحول میں ایک نوجوان شدت پسند ییگال عامیر سامنے آیا، جو قانون کا طالبعلم تھا اور خود کو خدا کی طرف سے مامور سمجھتا تھا۔ اس کا ماننا تھا کہ رابین کو قتل کرنا اسرائیل کو ’بچانے‘ کا واحد راستہ ہے۔ اسحاق رابین کے خلاف نفرت کی اس مہم کا انجام 4 نومبر 1995 کو ہوا، جب تل ابیب میں فلسطینیوں سے امن کی حمایت میں نکالی گئی ایک ریلی کے اختتام پر، رابین کو تین گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا۔
جب اسحاق رابین اپنی گاڑی میں سوار ہونے لگے تو ییگال عامیر نے ان پر دو گولیاں سینے اور پیٹ میں ماریں، جس کے نتیجے میں وہ موقع پر ہی جانبر نہ ہو سکے۔ ان کے قتل کے بعد پورا اسرائیل سکتے میں چلا گیا اور دنیا نے ایک بار پھر دیکھا کہ امن کی راہ پر چلنے والوں کو انتہا پسندی کیسے نگل جاتی ہے۔ اس قتل نے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان شروع ہونے والی امن کی امیدوں کو شدید دھچکا پہنچایا، اور اوسلو معاہدہ، جو آگے بڑھ سکتا تھا، وہیں دم توڑ گیا۔ آج بھی اس واقعے کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو ذہن میں ایک ہی سوال ابھرتا ہے: کیا واقعی امن کی خواہش اتنا بڑا جرم ہے کہ اس کی سزا موت ہو؟ اسحاق رابین کے قاتل ییگال عامیر آج بھی قید میں ہے، مگر وہ نفرت، شدت پسندی اور سیاسی تعصب جو اس قتل کی اصل وجہ تھے، بدستور زندہ ہیں۔